عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ عورتوں کے کپڑے اس کے ریپ کرنے میں 70فیصد کردار ادا کرتے ہیں حالانکہ اس کے کئی اہم پہلو ہیں ۔
(کالم نگار: ماہین خان)
ایک پہلو کو باقی سب پر جنرلائز کر کے باقیوں کو نظر انداز کر دینا منصفانہ عمل نہ ہوگا ۔مردانہ جبلت ، فطری پدر شاہی کم زور پر قابو پانے کی خواہش وغیرہ بھی اس بد عمل کی اہم وجوہات ہیں ۔
اگر صرف اور صرف عورت کے لباس کو اس بات کا قصوروار ٹھہرایا جائے تو کیوں چھوٹی بچیاں ، بچے اور حتی کہ کچھ جانور بھی اس بدفعلی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہاں دو طرح کے خیال کے لوگ پائے جاتے ہیں جو لوگ لباس کو نشانہ بناتے ہیں وہ اسلام کو اپنی دلیل پیش کرنے کے لئے ایک مضبوط سہارے کے طور پر سامنے لاتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام میں پردے کا حکم ہے لیکن اگر عورت پردے میں بھی محفوظ نہ ہو تو پھر ریپ کی ذمہ داری کس لباس پر ڈالی جاۓ۔
بھڑکیلا لباس پہننا اگر ریپ کی طرف بہکاتا ہےبھی تو کیا یہ بات مرد کو اس یہ اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنی فطری جبلت کو کو بہکاوے میں آکر تسکین دے؟
کیا وہ خود پر قابو پانے سے قاصر ہے؟
اگر عورت مختصر لباس میں ہے تو یہ بات تو کرنا جائز ہے کہ یہ مرد کو اکساتی ہے لیکن یہ بات ہر گز جائز نہ ہوگی کہ مرد اس عورت کا جس نے کم لباس پہنا ہے اس کا ریپ کرنے کا حق دار ہے۔
محض عورت کا لباس اس کی عصمت دری کی وجہ بنا نا دراصل مرد کو اس بات کی اجازت دینا ہے کہ جہاں کہیں بھی وہ عورت کو تھوڑے سے بھی کم لباس میں پائے تو اس کا ریپ کر دے-
ایک خبر پھیلتی ہے کہ ایک مدرسے میں ایک چھوٹے بچے کے ساتھ زیادتی کر دی گئی ہے تو کیا کوئی اس بات کا جواب دے سکتا ہے کہ کیا اس بچے نے چھوٹے کپڑے پہنے تھے؟ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں یہی تصور عام ہے ہے کہ چھوٹے کپڑے پہننے سے یا اس طرح کے کپڑے جو مرد کو اکساتے ہوں وہ ان کے ریپ کا باعث بنتے ہیں۔
حتی کہ امریکہ اور انگلینڈ میں بھی ایک لاء پاس کیا گیا جس میں یہ بتایا گیا کہ لڑکیوں کے سکول کا یونیفارم اس کے گھٹنوں سے نیچے تک ہو۔ جس کے بعد نتیجہ وہی نکلا کہ کیا چھوٹے بچے اور چھوٹی بچیاں بھی ریپسٹ کو اپنے کپڑوں کے وجہ سے متاثر کرتے ہیں؟
اس قسم کا کیس عدالت میں جاتا ہے تو عدالت وکٹم سے یہ سوال کرتا ہے کہ اس واقعے کے دوران آپ نے کس قسم کا لباس پہنا تھا اگر یہ بات سامنے آجائے آئے کہ اس وقت جو انسان نشانہ بنا اس کے کپڑے قابل اعتراض تھے تو نشانہ بننے والے انسان کو بھی اس میں ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے کہ چھوٹے کپڑے اس کی رضامندی ظاہر کرتے ہیں۔
اس پرزیادہ زور اسی لئے دیا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک بہت ہی پرسکون جواب ہے۔ ہر مسئلے کا حل ڈھونڈ لینا ایک بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے اور عدالت اور دنیا کے لوگ جب اس مسئلہ کا حل صرف اور صرف عورت کے لباس کو سمجھ لیتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ عورت کا لباس بدل دینے سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا تو ان کو ایک قسم کا سکون ملتا ہے کہ شاید ہم نے مسئلہ حل کر لیا۔ حالانکہ مسئلہ کا حل اس سے کہیں زیادہ آگے ہے اس سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ اصل مسلے کو حل کرنے کی طرف کوئی نہیں آتا۔ ہر کوئی اس آسان جواب پر اتفاق کر کہ بیٹھا ہے۔